This is an automatically generated PDF version of the online resource pakistan.mom-gmr.org/en/ retrieved on 2024/04/24 at 19:25
Global Media Registry (GMR) & Freedom Network - all rights reserved, published under Creative Commons Attribution-NoDerivatives 4.0 International License.
Freedom Network LOGO
Global Media Registry

میڈیا مارکیٹ ۔۔۔۔ رقم اورکنٹرول

پاکستان کے میڈیا نے گزشتہ ایک دہائی میں توسیع، اقتصادی بڑھوتری اورسامعین وناظرین کے اضافہ کے ساتھ بڑے پیمانے پر ترقی کی ہے۔ تاہم حالیہ سیاسی صورتحال اوراقتصادی عدم استحکام نے میڈیا مارکیٹ کو متاثر کیا ہے اور فنڈ سے متعلق کنٹرول میں رکاوٹ پیدا کی ہے اورریگولیٹری اور سینسرشپ سمیت دوسرے اثر ورسوخ نے اس کی جگہ لے لی ہے۔

قبل ازیں میڈیا کے اشتہارات، حکومت کی مالی امداد اورسیاسی کنٹرول نے ملک کی میڈیا مارکیٹ کی آزادی کیلئے خطرات کوجنم دیا، نئی مارکیٹ اورسیاسی خطرات اب بھی ریگولیٹری اورمارکیٹ کے طریقوں سے متعلق غیرمعمولی کنٹرول کیلئے پاکستان میں نیوزمیڈیاکوحساس بناتے ہیں اوراسی طرح قابل اعتماد اور معیار پراثرانداز ہوتے ہوئے بھرپورطریقہ سے کمزور کرتے ہیں۔

معلومات اور شفافیت کے چیلنجز سے متعلق خلا کے باوجود ایک واضح تصویرحاصل کرنے کی غرض سے ہمیں سامعین وناظرین کے حصہ کی بنیاد پر پاکستان میں ٹاپ کے 40 نیوز میڈیا اداروں کی فہرست پر غور کرنا ہوگا۔ اشتہارات کی آمدن، حکومت کی امداد اور میڈیا کو متاثرکرنے والی بدلتی ہوئی اقتصادی صورتحال  کی بنیاد پر میڈیا مارکیٹ کے مجموعی حجم کا بھی جائزہ لینا ہوگا۔

1.     سامعین وناظرین کے حصہ کے اعتبارسے پاکستان کے نیوز میڈیا کا منظر نامہ

اخبارات: گیلپ پاکستان کے 2018 میں پاکستانی میڈیا کے سامعین وناظرین کے حصوں سے متعلق ڈٰیٹا کے مطابق ملک میں ٹاپ کے 10 اخبارات کے قارئین کا حصہ تمام اخبارت کے قارئین کے حصہ کا 86% فیصد بنتا ہے۔ چوٹی کے چاراخبارات قارئین کے حصہ کا70% (four-fifths سے زیادہ) جبکہ باقی چھ اخبارات 16% فیصد حصہ رکھتے ہیں۔

ٹی وی چینلز:چوٹی کے 10 نیوز ٹی وی چینلز کا ناظرین کا مجموعی حصہ ملک میں تمام نیوز ٹی وی چینلز کے ناظرین کے حصہ کا 79% بنتا ہے۔چوٹی کے چار ٹی وی چینلز ناظرین کے حصہ کا54% (نصف سے زیادہ) جبکہ باقی چھ چینلز 25% حصہ رکھتے ہیں۔

ریڈیواسٹیشنز: چوٹی کے 10 نیوز ریڈیو اسٹیشنز کے سامعین کا مجموعی حصہ ملک میں تمام نیوز ریڈیو اسٹیشنز کے سامعین کے حصہ کا 48.2% بنتا ہے۔ چوٹی کے چار ریڈیو اسٹیشنز سامعین کا حصہ 35.6% ( نصف سے زائد) جبکہ باقی چھ 12.6% حصہ رکھتے ہیں۔

ریڈیواسٹیشنز: چوٹی کی 10 نیوز ویب سائٹس کے قارئین وناظرین کا مجموعی حصہ ملک میں تمام نیوز ویب سائٹس کے قارئین وناظرین کا 26.52% بنتا ہے۔ چوٹی کی چار نیوز ویب سائٹس کاقارئین وناظرین کا حصہ 24.84% ( نصف سے زائد) جبکہ باقی چھ نیوز ویب سائٹس کا11.68% حصہ بنتا ہے۔ جنگ گروپ کاجنگ، دی نیوزاورجیوکی تین ویب سائٹس کے ساتھ قارئین وناظرین کے مجموعی 26.43% حصہ میں  قارئین وناظرین کا حصہ9.84% بنتا ہے جو چوٹی کی 10 ویب سائٹس کے قارئین و ناظرین کے مجموعی حصہ کا 37.2% بنتا ہے۔ ایکسپریس گروپ کا ایکسپریس نیوز اور ایکسپریس ٹریبیون  کی دو ویب سائٹس کے ساتھ مجموعی26.52% حصہ میں قارئین وناظرین کاحصہ 8.03% ہے جو چوٹی کی 10 ویب سائٹس  کے مجموعی قارئین و ناظرین کا30.28%  بنتا ہے۔ اس طرح جنگ گروپ کا 37.1% اور ایکسپریس گروپ کا30.28%   ملا کر کل حصہ67.38% بنتا ہے، اس کا مطلب ہے کہ دونوں میڈیا گروپ ملک میں چوٹی کی 10 نیوز ویب سائٹس کی تمام نیوز ویب سائٹ ٹریفک کا نصف سے زائد ہیں۔

2.     پاکستانی میڈیا کی معیشت کا حجم

کم ہوتی ہوئی شرح ترقی کے ساتھ نیوز میڈیا انڈسٹری

نئی ہزاری نے پاکستانی میڈٰیا کے منظرنامہ میں حجم کے اعتبارسے ایک سخت گیرتبدیلی دیکھی۔ ملک میں نشری شعبہ کو تجارتی کھلاڑیوں کے لئے کھولنے سے پہلے2002 میں ایک سرکاری ٹی وی چینل اور ایک سرکاری ریڈیو چینل تھا۔ پیمرا کے مطابق 2019 کے آغاز پراب کل 88 ٹی وی چینلز (نیوزاور انٹرٹینمنٹ) اور 209 ریڈیواسٹیشنز ہیں۔ اس عرصہ کے دوران صحافیوں کی تعداد 2 ہزارسے بڑھ کر تقریباً 20 ہزار تک پہنچ گئی جبکہ میڈیا انڈسٹری سے منسلک افراد کی مجموعی تعداد تقریباً ڈھائی لاکھ ہے۔ میڈٰیا انڈسٹری کے حجم میں اس توسیع کے نتیجہ میں اقتصادی سرگرمیاں بہترہوئی، فی کس آمدن میں اضافہ ہوااورصارف کی معیشت کوترقی ملی جبکہ اشتہارات کے شعبہ میں توسیع کے ساتھ پرائیویٹ آمدن میں بھی بے انتہااضافہ ہوا۔

2017 میں پاکستان کی سرکاری خبر ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان (APP) کی ایک رپورٹ کے مطابق 2002 سے2017 کے دوران پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا انڈسٹری میں مجموعی طور پر 4 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی گئی اور ایک اندازے کے مطابق یہ سرمایہ کاری 2018 کے آخر تک 5 ارب ڈالر کو چھو رہی تھی۔ رپورٹ میں کہاگیاکہ مجموعی قومی ترقی نے بھی پرائیویٹ سیکٹر کی الیکٹرانک میڈیا انڈسٹری کی ترقی کیلئے خاطر خواہ کردار اداکیا اور میڈیا گروپوں کے کام، موادسازی کے اداروں، ایڈورٹائزنگ ایجنسیوں اور پرفارمنگ آرٹس کے پھیلائو کی توسیع میں مدد دی۔

تاہم 2018 کی دوسری ششماہی میں برے حالات نے سر اٹھایا، پاکستان کی میڈیا انڈسٹری جسے جنوبی ایشیا میں ایک وقت میں انتہائی فعال سمجھا جاتاتھا، تقریباً2 ہزار صحافیوں کے ساتھ کنٹریکٹ کرنا شروع کردیئے اور میڈیا کارکنوں کو فارغ کیا گیا اور متعدد ادارے بند کردیئے گئے۔ جولائی 2018 کے عام انتخابات کے نتیجہ میں ایک ایسی جماعت کی سربراہی میں حکومت وجود میں آئی جو کاروبار اور معشیت دوست دکھائی نہ دی، حکومتی مراعات واپس لے لی گئیں، اشتہارات کے معاوضے کم کردیئے گئے جس کے نتیجہ میں بڑے اور مستحکم میڈیا گروپ اپنی اخبارت اور ٹی وی چینلز بند کرنے اور صحافیوں کی چھانٹیوں پر مجبور ہوگئے۔ ملک کے سب سے بڑے میڈیا ادارے جنگ گروپ  اپنی دو مطبوعات اور اور دو بیورو آفس بند کردیئے اور ایک ہی دن میں 1400 سے زائد صحافی اور متعلقہ عملہ بے روزگارہوگیا۔ تیسرے اور چوتھے بڑے میڈیا اداروں ایکسپریس میڈیا گروپ اور دنیا میڈیا گروپ  نے بھی200 سے زائد صحافیوں کو فارغ کیا اور باقی رہ جانے والے کارکنوں کی تنخواہوں میں 15 سے  35 فیصد تک کٹوتی کی گئی۔

میڈیا کی سابقہ اٹھان نے صحافیوں کے مخصوص طبقہ کو فائدہ دیا تھا جن میں زیادہ تر ٹی وی میزبان تھے جنہوں نے بڑی بڑی تنخواہیں لیں اور ہزاروں نوجوانوں کی صحافت کے پیشہ کی جانب راغب کیا۔ اس وقت پھیلتی ہوئی میڈیاانڈسٹری کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے 2005 سے درجنوں یونیورسٹیوں نے صحافت اور ابلاغ عامہ کے شعبہ جات قائم کئے لیکن اس وقت صرف چند چینلز ہی وقت پر تنخواہیں ادا کرتے ہیں جبکہ سب سے بڑا جیو ٹی وی اب اکثر اپنے عملہ کو تنخواہیں بقایا جات کی صورت میں ادا کرتاہے اور اس تبدیلی کا الزام حکومتی رکاوٹوں اور پرائیویٹ ایڈورٹائزنگ پر لگا دیا جاتاہے۔ 2018 کے اختتام پر میڈیا انڈسٹری کی صورتحال انتہائی پتلی تھی۔

پاکستانی میڈیا کیلئے اشتہارات کی کم ہوتی لیکن اب بھی بہتر آمدن

2016 سے 2018 کے عرصہ کے دوران پاکستان میں میڈیا کے اشتہارات کے کاروبارمیں مجموعی طور پر مندی کا رجحان رہا۔ مالی سال 2107-18 کے آخر اور 2016-17میں پاکستان میں میڈیا اشتہارات کی کل مارکیٹ درج ذیل ہے جس میں  سہ ماہی میگزین Aurora کے 2018 کے آخری شائع ایڈیشن(i) کے مطابق اس میں ٹی وی، ریڈیو، اخبارات، آن لائن، بیرون ملک، برانڈ کی فعالیت اور سینما کی کیٹگریز کو شامل کیاگیا:

اشہتارات کی کل مالیت

2017-18: 81.6 ارب روپے (680 ملین ڈالر) ۔۔۔۔ ٹی وی، ریڈیو، آن لائن میڈیا، اخبارات اور دیگر۔

2017-18 میں نیوز میڈیا کیلئے اشتہارات میں کمی

46% ۔۔۔۔ 38 ارب روپے (316.6 ملین ڈالر) ۔۔۔ ٹی وی میڈیا

24% ۔۔۔۔ 19.5 ارب روپے (162.5 ملین ڈالر) ۔۔۔۔ اخبارات

08% ۔۔۔۔ 8 ارب روپے (66.6 ملین ڈالر) ۔۔۔۔۔ آن لائن میڈیا

03% ۔۔۔۔ 2.5 ارب روپے (20.8 ملین ڈالر) ۔۔۔۔ ریڈیو میڈیا

مالی سال2016-17 میں اشتہارات  کی کل مالیت  87.7ارب روپے (730.8 ملین ڈالر) تھی۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان میں گزشتہ مالی سال کی نسبت 2017-18 میں اشتہارات کے مجموعی کاروبار میں 7% کمی کیسے ہوئی؟۔ Aurora کے مطابق ٹی وی کیلئے اشتہارات کی آمدن میں 4 ارب روپے (33.3 ملین ڈالر) کمی ہوئی جوآمدن میں 9.5% اورشیئرمیں 2% کمی بنتی ہے۔ اخبارات کیلئے آمدن میں 500 ملین روپے (4.1 ملین ڈالر) کمی ہوئی جو آمدن میں2.5% اور شیئر میں1% کمی بنتی ہے۔ آن لائن میڈیا کیلئے آمدن میں2.5 ارب روپے (20.8 ملین ڈالر) کمی ہوئی جوآمدن میں46% اور شیئر میں4% کمی بنتی ہے جبکہ ریڈیو کی آمدن میں 500 ملین روپے(4.1 ملین ڈالر) کمی ہوئی جوآمدن میں17% کمی بنتی ہے لیکن شیئر میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔

میڈیا کیلئے اشتہارات کے سب سے بڑے ذرائع

Aurora کے اعدادوشمار کے مطابق 2017-18 میں پرنٹ میڈیا میں چوٹی کے 10 ایڈورٹائزرز (پراڈکٹ کیٹگری کے مطابق) میں وفاقی حکومت نے سب سے زیادہ اشتہارات پر اخراجات کئے جس کاگزشتہ مالی سال میں چوتھا نمبر تھا۔ دوسرے نمبر پر ریئل اسٹیٹ سیکٹر رہا جو گزشتہ سال پہلے نمبر پر تھا، تعلیمی ادارے تیسرے نمبر پر رہے جو گزشتہ سال دوسرے نمبر پر تھے، مالیاتی خدمات چوتھے نمبر پر رہیں جو گزشتہ سال تیسرے نمبر پر تھیں اور ادویات ساز کمپنیاں پانچویں نمبر پر ہیں جو گزشتہ سال بھی اسی نبر پر تھیں۔

2017-18 میں ٹی وی میڈیا (نیوزچینلزاورغیرنیوزچینلز) کے چوٹی کے10 ایڈورٹائزرز (پراڈکٹ کیٹگری کے مطابق) میں نجی شعبہ خصوصاً صارف اشیا اور ٹیلی کام انڈسٹریز چھائی رہیں۔

2017-18 میں ریڈیو میڈیا کے 10 بڑے ایڈورٹائزرز (پراڈکٹ کیٹگری کے مطابق) ایک مرتبہ پھر صارف اشیام ریئل اسٹیٹ اوربڑے آلات کی صنعتوں کے سیکٹر نمایاں رہے۔

ایک سے زیادہ میڈٰیا کی پہنچ کے ذریعہ اثرورسوخ کا استعمال

گیلپ پاکستان کے 2018 کے ڈیٹا کے مطابق سامعین، ناظرین اور قارئین کے اعتبار سے چوٹی کے 40 نیوز میڈیا ادارے اس بات کا اشارہ دیتے ہیں کہ کم ازکم سات میڈیا گروپ ٹی وی، ریڈیو، اخبارات اور انٹرنیٹ سمیت ایک سے زیادہ میڈیا ادارے کی ملکیت رکھتے ہیں۔ یہ ایک سے زیادہ میڈٰیا ملکیت کا افقی ارتکاز سامعین وناظرین تک پہنچ کے ساتھ ساتھ ان کمپنیوں کے اثر ورسوخ کو توسیع دیتاہے۔

ٹی وی چینلز،سب سے زیادہ کمانے والے:مالی سال 2017-18 میں اشتہارات کی آمدن کے اعتبار سے Aurora کے اعدادوشمار کے مطابق چوٹی کے 15 چینلز نے سب سے زیادہ سرمایہ کمایا ان میں 7 نیوز چینلزاورباقی انٹرٹینمنٹ چینلز ہیں۔ سب سے زیادہ کمانے والے پانچ بڑے چینلز کی درجہ بندی میں جیو نیوزاوردنیا نیوز چینلز شامل ہیں جنہوں نے پورے ٹی وی میڈیا سیکٹر کے چوٹی کے پندرہ چینلز کی اشتہارات کی کل آمدن 26 ارب روپے (216 ملین ڈالر) میں سے تقریباً 4.5 ارب (37.5 ملین ڈالر) کمایا۔ ان چینلز میں سے سب سے بڑا گروپ جیوٹھہراجس نے اپنی خبروں (جیونیوز) اورانٹرٹینمنٹ (جیو انٹرٹینمنٹ) کے ساتھ چوٹی کے پانچ چینلزمیں جگہ بنائی اور5 ارب روپے(41.6) کمانے میں کامیاب رہا۔

اخبارات، سب سےزیادہ کمانے والے:

مالی سال 2017-18 میں اشتہارات کی آمدن کے اعتبار سے Aurora کے اعدادوشمار کے مطابق چوٹی کے 15 اخبارات نے سب سے زیادہ سرمایہ کمایا ان میں 5 اخبارات نے کل آمدن17.3 ارب روپے (144.1 ملین ڈالر) کا 56% یا 9.7 ارب روپے (80.8 ملین ڈالر) کمایا۔ ان اخبارات میں سے سب سے بڑا گروپ جنگ گروپ ٹھہرا جس کے دو اخبارات اردو اخبار روزنامہ جنگ اور انگریزی اخبارڈیلی دو نیوز نے نصف سے زیاد 5 ارب روپے (41.6 ملین ڈالر) کمایا۔

3.    پاکستان میں میڈیا کیلئے حکومت کی امداد

2002 میں میڈیا کو نجی شعبہ کیلئے اوپن کرنے سے لے کر ریاست پاکستان میں نجی میڈیا سیکٹر کے نشری میڈیااور اخبارات دونوں کیلئے امداد کا سب سے اہم ذریعہ رہاہے، سرکاری اشتہارات نے میڈیا کے معاملات میں تاریخی طور پر ریڑھ کی ہڈی کا کام کیا ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں نے اکثرپرائم ٹائم کے گھنٹوں میں سرکردہ ٹی وی چینلز کے مالی آپریشنز کو اعانت دیتے ہوئے ان کا ایئر ٹائم لیاہے۔ اسی طرح حکومتوں نے سرکردہ اخبارات کے مالی آپریشنز کو اعانت دیتے ہوئے انہیں اشتہارات فراہم کئے ہیں۔

انگریزی اخبارڈیلی ڈان کے مطابق مالی سال 2015 میں پاکستان میں اشتہارات کی مارکیٹ کا حجم 66.9 ارب روپے (583.3 ملین ڈالر) تک اور2017 میں 87.7 ارب روپے (733.3 ملین ڈالر) تک بڑھا۔ اگست 2018 میں سینٹ کو بتایا گیا کہ حکومت نے 2013 سے 2017 کے درمیان پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو 15.7 ارب روپے (133.3 ملین ڈالر) مالیت کے اشتہارت(ii) دیئے ہیں۔

اسی طرح خصوصاً جولائی 2018 کے انتخابات کے بعد پنجاب اور سندھ کی صوبائی حکومتوں ، جو پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کیلئے اشتہارات کی مد میں آمدن کے بڑے ذرائع ہیں اور اسلام آباد میں وفاقی حکومت نے اشتہارات کے بجٹ میں 70% تک کمی کی جس کے باعث میڈیا انڈسٹری کو بدترین مالی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا۔

میڈیا انڈسٹری کے ذرائع کا کہناہے کہ جاری صدی کی دوسری دہائی میں پاکستان کی اخباری صنعت میں فروخت کی شرح میں 15% سے 20% تک کمی ہوئی ہے۔ اردو زبان کے اخبارات پر مشتمل پرنٹ میڈیا مارکیٹ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئی ہے جبکہ انگریزی زبان کے اخبارات کی مارکیٹ میں نسبتاً تھوڑا ایسا ہوا ہے۔ 2010 سے درمیانے درجے کے اخبارات کا اشتہارات کی مد میں منافع بھی بہت کم ہوا ہے جو سیکڑوں کی تعداد میں عملے کوفارغ کرنے کا سبب بنا۔ انگریزی اخبارات کے قارئین کی تعداد میں کمی کی وجہ سے ٹیلی کام کمپنیاں اپنے اشتہارات اردوٹی وی چینلز کودے رہے ہیں۔2015 سے انگریزی زبان کے دوٹی وی چینلز کا بند ہونا بھی وضاحت طلب ہے۔ اگرچہ ڈان ٹی وی (انگریزی) اورایکسپریس 24/7 پاکستان میں دوبڑے میڈیا اداروں سے تعلق رکھتے تھے، اشتہارات میں بڑی کمی کی وجہ سے ان چینلز کو بند کرنا پڑا۔

نیوز میڈیا کے کاروباری نمونوں کی ناکامی

پاکستان میں اب بہت سے صحافی سوچتے ہیں کہ پاکستان بھر میں ملکیت واحد سرمایہ یا واحد فیملی کے ہاتھ میں کا کاروباری ماڈل ناکام ہوگیا ہے کہ جوصحافیوں اور صحافت کی قسمت کا فیصلہ کرتے آرہے ہیں،یہ پیچیدگیاں نہ صرف کاروبارکوبند کرنے سے روکتی ہیں بلکہ معیاری صحافت اور سینسرشپ میں اضافہ کا باعث بھی بنتی ہیں۔ مالی ناکامیوں نے میڈیا مالکان اورانتظامیہ کو مجبور کیا ہے کہ وہ سیاسی حکومت اورسیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ سمیت ریاستی مشینری کے بڑھتے ہوئے دبائو کو کم کریں کیونکہ آزاد میڈیاکی جانب سے ان کی پالیسیوں پرتنقیدسے سیاسی حکومت اورسیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ دونوں اپنی حمایت کھورہے ہیں۔ اشتہارات کی مد میں آمدن میں کمی پرقابوپالیاگیایا سیدھاسیدھا خاموش کرادیاگیا۔ خاص طور پر 2018 میں میڈیا کی بعض اہم اداروں کومالی طور پر دبانا گہرا اثر ہوا ہے جس کے نتیجہ میں گزشتہ چند برسوں میں باقی میڈیا کی جانب سے حکومت پر نتقید میں کافی کمی آئی ہے۔

پاکستان ایک صارف کی بنیاد پر ایک بڑا ملک ہے اور2017-18 مالی سال کے آخر پر میڈیا اشتہارات کا سالانہ حجم 81.6 ارب روپے (680 ملین ڈالر) تھا،ٹی وی مارکیٹ کی زیادہ تک مالی مدد پرائیویٹ سیکٹر کررہاہے جبکہ سرکاری اشتہارات کی مد میں بڑی رقم دی جاتی ہے لیکن وہ ٹی وی میڈیا کے ٹاپ کے 10 اشتہارات اخراجات کی فہرست میں شامل نہیں ہے۔ یہی چیز ٹی وی نیوز میڈیاکیلئے آزادصحافت کی راہ ہموارکررہی ہے، گزشتہ چند برسوں میں ٹی وی میڈیا وفاقی اورصوبائی دونوں سطح پر مختلف حکومتوں کے ناقدین کودکھارہاہے۔تاہم پاکستان کا پرنٹ میڈیازیادہ ترسرکاری اشتہارات پرانحصارکرتاہے اور2016سے وفاقی حکومت اخبارات کوسب سے زیادہ اشہارات دینے والوں میں سرفہرست ہے۔

پرنٹ میڈیا اکثرحکومت کیخلاف سخت موقف اپناتاہے، عمومی طور پران کی خبروں کی رپورٹنگ مساویانہ اورآزادنہیں ہے جوشاید حکومتی اشتہارات پرزیادہ انحصار کرنے کو ظاہرکرتی ہے۔ تاہم جولائی 2018 میں عام انتخابات کے نتیجہ میں عمران خان کی پارٹی پاکستان تحریک انصاف کے اقتدارمیں آنے کے بعد سےچیزیں بدل رہی ہیں، تمام میڈیا سے نمٹنے کیلئے دشمنی کی جارہی ہے اوراشتہارات پر بڑا کٹ لگا دیا گیاہے جس کے باعث میڈیا میں 2 ہزار سے زائد لوگ بیروزگار ہوگئے ہیں جبکہ بعض ٹی وی چینلز اور اخبارات کو بند بھی کردیا گیاہے۔پاکستان میں ڈیجیٹل میڈیا کو حکومت کی حمایت حاصل نہیں ہے اور اس لئے سرکاری سیکٹر کی بجائے پرائیویٹ سیکٹر کی جانب سے جاری رکھی جانے والے ادارتی موقف میں مکمل طور پرآزادانہ پہلو نظرآتا ہے۔

  • منصوبہ از
    Logo Freedom Network
  •  
    Global Media Registry
  • فنڈ دیئے
    BMZ