This is an automatically generated PDF version of the online resource pakistan.mom-gmr.org/en/ retrieved on 2024/04/19 at 21:33
Global Media Registry (GMR) & Freedom Network - all rights reserved, published under Creative Commons Attribution-NoDerivatives 4.0 International License.
Freedom Network LOGO
Global Media Registry

معاشرہ

 

تکثریت کی کمی کی وجہ سے ذرائع ابلاغ میں آبادی کا تنوع غائب

پاکستان ایک بڑا اور متنوع آبادی والا ملک ہے، 2017 کی مردم شماری کے مطابق اس کی آبادی 20 کروڑ 70 لاکھ ہے۔ لیکن پاکستانی ذرائع ابلاغ اس تنوع کی عکاسی کرنے میں ناکام رہا ہے۔ ذرائع ابلاغ کے لیے موضوعات کا انتخاب کرنے والا اوراس کا صارف دونوں کا تعلق زیادہ تر شہروں میں رہنے والے درمیانے طبقے کے سنی مسلمان مردوں سے ہے۔ اور یہی پر ہمیں جواب مل جاتا ہے کہ کیوں خبر سازی یا تبصروں میں دیہاتی آبادی، مذہبی یا لسانی اقلیتوں، مزدوروں اور عورتوں کو کم وقت دیا جاتا ہے۔

جغرافیہ: ذرائع ابلاغ کی اکثر جغرافیائی توجہ پنجاب پر رہی ہے

جغرافیائی اور انتظامی لحاظ سے پاکستان کو چار صوبوں میں تقسیم کیا گیا ہے یعنی پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان اور دو نیم خود مختار علاقے، گلگت-بلتستان اور آزاد کشمیر، بھی اس کا حصہ ہیں۔ لیکن زرائع ابلاغ کی توجہ زیادہ تر آدھے درجن سے بھی کم شہری مراکز پر مرکوز رہتی ہے جس میں جنوبی ساحلی شہر کراچی، بڑی آبادی والا تاریخی شہر لاہور، پشاور اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد (اور اس کا جڑواں شہر راولپنڈی جہاں عسکری صدر دفاتر واقع ہے) شامل ہیں۔ کسی بھی ایک گھنٹے یا دن کے دوران خبروں کا زیادہ حصہ پنجاب پر مرکوز رہتا ہے جو کہ باقی صوبوں میں سب سے بڑا، جس میں تقریباً 52 فیصد پاکستانی رہتے ہیں، اور سب سے خوشحال صوبہ ہے۔ لیکن اس میں حیرانی کی بات نہیں کیونکہ پنجاب میں ہی اخبارات و جرائد  کےقارئین، ٹیلیویژن چینلز کے ناظرین اور ریڈیو کے سامعین ذیادہ تعداد میں رہتے ہیں۔ پاکستان کے تمام صحافیوں میں سے نصف پنجاب میں کام کرتے ہیں اور یہ حقیقت پنجاب پر خبروں کی توجہ کو زیادہ تقویت بخشتی ہے۔

ذرائع ابلاغ کے صارفین کا دوسرا اہم حصہ کراچی میں رہتا ہے جو ملک کے شہری علاقوں میں سب سے بڑا تصور ہوتا ہے اور اس کی آبادی ایک کروڑ 60 لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے جس میں اکثریت ہندوستان سے ہجرت کرنے والے اور اردو بولنے والے مہاجرین کی نئی نسل ہے۔ اکثر ذرائع ابلاغ کے صدر دفاتر یہاں ہیں جس کا مطلب یہ بھی بنتا ہے کہ یہ شہر اور اس کے باسیوں کو میڈیا میں ان کی تعداد کے تناسب سے بھی زیادہ نمائندگی ملتی ہے۔  کراچی سندھ کا دارالحکومت ہے اور اس صوبے کی آبادی چار کروڑ80 لاکھ ہے۔ اس صوبے میں سندھی بولنے والے رہتے ہیں جو تعداد کے لحاظ سے باقی ماندہ پاکستان کا 1۔14  فیصد بنتے ہیں۔ لیکن جب تک کوئی حادثہ واقع نہ ہوجائے، یا قدرتی آفت نہ آئے یا سندھی بولنے والے علاقوں میں کوئی اور سانحہ وقوع پذیر نہ ہو تو وہ خبروں سے غائب رہتے ہیں۔ شمال مغربی صوبہ خیبر پختونخوا، جس کی سرحد افغانستان سے ملتی ہے، اور بلوچستان کی، جو افغانستان اور ایران دونوں کی سرحدوں تک پھیلا ہوا ہے، آبادی بالترتیب تین کروڑ اور ایک کروڑ 20 لاکھ ہے۔ ان دونوں علاقوں نے 11/9 کے بعد شورش، تشدد اور دہشت گردی دیکھی پس قومی ذرائع ابلاغ ان کو خطرناک علاقوں کے طور پر ہی دیکھاتا ہے۔  

انتہائی شمال میں واقع گلگت بلتستان اور شمال مشرق میں واقع کشمیر دونوں پاکستان کے جغرافیائی نقشے کے دوسرے حصے کو تشکیل دیتے ہیں۔ ان دونوں کا تعلق سامراجی دور کی ریاست جموں و کشمیر سے ہے اور پاکستان و بھارت کے درمیان متنازعہ ہیں جس کی وجہ سے یہ نیم خود مختاری کی حالت میں ہیں۔ ان وجوہات کی وجہ سے یہ علاقے ایک غیریقنی صورتحال میں ہیں۔ ان کی سیاست و انتظام تو پاکستان کی ریاستی ساخت میں ضم ہوچکے ہیں لیکن ان کی ملک میں آئینی حیثیت غیر واضح ہے۔ وہ چین، پاکستان اور ہندوستان کے عرصہ دراز سے متنازعہ سنگم پر واقعہ ہیں اور اسٹریٹیجک محل وقوع کی وجہ سے یہ انتہائی اہم علاقے ہیں۔ ذرائع ابلاغ میں بھی ان کو بس یہی کوریج ملتی ہے۔ ایک اور موضوع جس کی وجہ سے ان کا ذکر خبروں میں آجاتا ہے وہ ہے تفریحی مقامات کے طور پر ان علاقوں کی خوبیاں اور مسائل کیونکہ وہاں دلکش وادیاں اور پہاڑی سلسلے ہیں۔ دراصل، گلگت-بلتستان میں دنیا کی کئی بلند ترین چوٹیاں ہیں۔

زبان- مقامی زبانوں کی آمیزش

اگر چہ اردو آٹھ فیصد سے بھی کم پاکستانیوں کی مادری زبان ہے لیکن اردو میں شائع یا نشر ہونے والے اخبارات، جرائد، ٹی وی چینلز، ریڈیو سٹیشن اور ویب سائٹوں کے سب سے زیادہ قارئین، ناظرین یا سامعین ہیں۔ یہ عجب ہے کہ اس اردو میڈیا کے صارفین کی اکثریت پنجاب میں پائی جاتی ہے جہاں مقامی باسیوں کی مادری زبان اردو نہیں ہے بلکہ پنجابی ہے۔ پنجابی 5۔44 فیصد پاکستانیوں کی زبان ہے اگرچہ وہ سارے پنجاب میں نہیں رہتے۔ یہی صورتحال خیبر پختونخوا کی ہے جہاں تقریباً 74 فیصد لوگ پشتو بولتے ہیں لیکن ایک بھی پشتو زبان کا اخبار یا ٹی وی چینل ایسا نہیں جو زیادہ تعداد میں قارئین یا ناظرین کو راغب کرتا ہو۔ پشتو زبان میں خبروں کا کامیاب ذریعہ واحد ریڈیو رہا ہے جس نے 2000 کی دہائی کو اوائل سے بہت سارے سامعین کو اپنی طرف راغب کیا لیکن اس کا اثر بھی ہمیشہ مثبت نہیں رہا۔

 اپنے  پرتشدد اسلامی نظریے کی ترویج کے لیے، انتہا پسند و عسکریت پسند رہنماؤں نے پشتو بولنے والے علاقوں میں غیرقانونی ریڈیو سٹیشنز قائم کئے۔ 09-2007میں ایک موقع ایسا بھی آیا کہ ایک اسلامی ملیشیا کے سربراہ نے، جن کو ریڈیو میڈیا پر زیادہ بولنے کی وجہ سے فرضی نام ملا ریڈیو ملا تھا، اسلام آباد سے صرف 200 کلو میٹر کے فاصلے پر شمال مغرب میں واقع سوات کی خوبصورت وادی پر قبضہ بھی کر لیا۔ 2007 اور 2014 کے درمیان اسلامی عسکریت پسند، پاکستان اور افغانستان کے سرحد سے متصل قبائلی علاقوں میں متعدد غیرقانونی ریڈیو سٹیشن چلاتے تھے۔

 حالیہ برسوں میں سکیورٹی فورسزنے اکثر غیرقانونی ریڈیو سٹیشن بند کر دیئے ہیں لیکن پشتو زبان میں چلنے والے ریڈیو سٹیشن کا پروپیگینڈا اب بھی غالب ہے۔ بس فرق اتنا ہے کہ اب پروپیگینڈا فوج اور مغرب کر رہا ہے (مغرب اس مقصد کے لیے وائس آف امریکہ اور ریڈیو فری یورپ سے منسلک ریڈیو مشال کا استعمال کر رہا ہے)۔ ایک بڑا سوال یہ اٹھتا ہے کہ اسی زبان میں چلنے والے اخبارات اور ٹیلیویژن چینل کیوں کامیاب نہیں ہوتے؟ اور ایک حقیقت جو اس سوال کو مزید پیچیدہ کرتی ہے وہ یہ کہ پاکستان میں پشتو بولنے والے، پنجابی کے بعد دوسری بڑی تعداد (42۔15 فیصد) تصور ہوتے ہیں۔ وہ صرف خیبر پختونخوا میں نہیں رہتے بلکہ ملک کے دیگر علاقوں میں بھی ان کا گزر بسر ہوتا ہے، مثلاً بلوچستان کی آبادی کے 64۔29 فیصد پشتو بولتے ہیں، وفاقی دارالحکومت کے علاقوں میں وہ 52۔9 فیصد اور سندھ کے شہری علاقوں میں 96۔7 فیصد، جن کی زیادہ تعداد کراچی میں ہے، پشتو بولتے ہیں۔ 

سرائیکی زبان بولنے والے ( جن کی اکثریت جنوبی پنجاب میں رہتی ہے اور پاکستان کی آبادی کا 53۔10 فیصد بنتے ہیں)، ہندکو بولنے والے ( جو خیبر پختونخوا کی آبادی کا تقریباً 20 فیصد بنتے ہیں) اور بلوچی بولنے والے ( جو پاکستانی آبادی کے تناسب سے 57۔3 فیصد شمار ہوتے ہیں)، کا بھی اپنی اپنی زبانوں میں کوئی بھی بڑا ذرائع ابلاغ موجود نہیں ہے۔ دسیوں لاکھ وہ پاکستانیوں کی جو چھوٹی زبانیں بولتے ہیں جیسا کہ براہوی، گجراتی، اور شینا، بھی زرائع ابلاغ میں نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ کراچی کو چھوڑ کے، سندھ واحد پاکستان کا علاقہ ہے جہاں غیر اردو زبان کے تقریباً اتنے زیادہ صارفین ہیں جتنے اردو زبان میں چلنے والے ذرائع ابلاغ کے۔ سندھی زبان میں اخبارات و جرائد کی کئی دہائیوں پرانی روایات ہیں۔ ٹیلیویژن چینل اور ریڈیو سٹیشن جو سندھی زبان میں نشریات و ترسیلات دے رہے ہیں کے بھی اپنے ناظرین و سامعین ہیں اگرچہ وہ اپنے اردو زبان کے حریفوں سے معیار اور مالی وسائل کے لحاظ سے بہت پیچھے ہوتے ہیں۔

پاکستان کے مختلف علاقوں میں اردو زبان کے اخبارات، ٹی وی چینل اور ریڈیو سٹیشن کی یکساں موجودگی کی وضاحت، تقسیم برصغیر ہند سے ملنے والے ورثے سے شاید ہوسکتی ہے۔ نظریہ پاکستان کی طرح، جس کا مطلب ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے علٰحیدہ ملک تھا، اردو نے بھی برطانیہ کے زیر انتظام ہندوستان کے ان علاقوں میں جنم لیا جہاں مسلمان اقلیت میں تھے۔ جب 1947 میں پاکستان بنا تو اس نے برصغیر کے شمال مغربی اور مشرقی حصوں، جہاں مسلمان اکثریت میں تھے، میں اردو رائج کر دی۔ ان علاقوں میں ہمیشہ سے مقامی سطح پر اپنی امتیازی زبانیں، رسم و رواج اور علاقائی سیاست رہی ہے۔ ان غیرمساوی علاقوں کو اکھٹا کرنے کے لیے حکمران طبقہ نے جن میں اکثریت ہندوستان سے ہجرت کرنے والوں کی تھی، اسلام اور اردو کو متحد کرنے کی طاقت کے طور پر استعمال کیا۔ لیکن خونریز خانہ جنگی اور سقوط مشرقی پاکستان کے بعد ایک خودمختار ریاست بنگلہ دیش وجود میں آئی،اس سے ثابت ہوا کہ ایسا کرنا ایک کامیاب طریقہ نہیں تھا۔ اس علاقے کے لوگ غصہ تھے کہ ان کی زبان کو وہ شناخت نہیں دی گئی جس کی وہ مستحق تھی اور یہ کہ ان کی ثقافت 'تمام پاکستانیوں کی اسلامی پہچان' کے نام پر دبائی گئی۔ ان کی علٰحیدگی، تاہم، ریاست پاکستان کوسرکاری نظام تعلیم اور سرکاری نشریات کے ذریعے اردو کو فروغ دینے اور قومی زبان کے طور پر لاگو کرنے سے نہ روک سکی۔

ان تمام کوششوں کا نتیجہ پچھلی سات دہائیوں میں یہ نکلا ہے کہ اردو ملک کی عالمگیر زبان بن گئی ہے جو یہاں کے تقریباً تمام علاقوں میں پڑھی، بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ ذرائع ابلاغ کا اردو زبان کو ترجیحاً استعمال کرنے کے رجحان کا تعلق سکولوں کی سطح پر ذریعہ تدریس سے ہے۔ سرکاری  376،131 پرائمری، 928،16 مڈل اور 129،13  ہائی سکول، اردو کو ہی بنیادی ذریعہ تدریس کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ اسی طرح، نجی شعبے میں چلنے والے 753،18 پرا ئمری، 162،32 مڈل، اور 422،18 ہائی سکول کا بنیادی ذریعہ تدریس اردو اور انگریزی دونوں ہیں۔ سکولوں کی سطح پر چونکہ سندھی کے علاوہ کوئی اور مقامی زبان نہیں سکھائی جاتی اس لیے اردو کی سمجھ بوجھ کسی بھی دوسری زبان بشمول انگریزی کے مقابلے میں زیادہ ہے۔

مذہب: ذرائع ابلاغ کی خبرسازی اور نشر و تشہیر میں تکثیریت کی طرف عدم توجہ 

پاکستان میں جس طرح اردو خبروں کی حاوی زبان ہے اسی طرح مسلمانوں کو ذرائع ابلاغ میں ذیادہ توجہ دی جاتی ہے۔ بظاہر اسلام کو یہ توجہ ملک میں آبادی کی خصوصیات کے عین مطابق ہے۔ 2017 کی مردم شماری کے مطابق پاکستانیوں میں 96 فیصد سے کچھ ذیادہ مسلمان ہیں۔ لیکن یہ فیصدی یہ نہیں بتا رہی کہ پاکستان میں مسلمانوں کے مذہبی عقائد یکسانیت سے بہت دور ہیں۔ اگرچہ مردم شماری فرقہ ورانہ شناخت کی کوئی قلم بندی نہیں کرتا لیکن مسلمانوں میں ظاہری یکسانیت کی سطح سے نیچے تنوع پریشان کن حد تک موجود ہے۔ یہاں تک کہ سنی اسلام کے پیرو کار، جو ایک اندازے کے مطابق پاکستان کی آبادی کا 75 سے 85 فیصد ہیں، بھی آپس میں کئی لحاظ سے تقسیم ہیں۔ اس تقسیم کی ایک واضح قسم مختلف مکتبہ فکر کے مذہبی قوانین ہیں جن کی پیروی پاکستانی سنی کرتے ہیں جیسا کہ حنفی اور سلفی (اہلحدیث)۔ پاکستانی مسلمانوں کا سب سے بڑا ذیلی گروہ حنفی آگے جا کر دیوبندیوں اور بریلویوں میں تقسیم ہوتا ہے۔ یہ دونوں اصل میں دو مختلف مدرسوں کے بانیوں کے نام سے تعلق رکھتے ہیں جنہوں نے انیسویں صدی عیسوی میں ان (مدرسوں) کی بنیاد موجودہ ہندوستان کے علاقوں میں رکھی تھی۔

 پاکستان میں شیعہ مسمانوں کی تعداد اندازاً 15سے 20 فیصد کے درمیان ہے۔ لیکن وہ بھی آپس میں کئی لحاظ سے تقسیم ہیں۔ ان کی اکژیت اثناء عشری ہے جو 12 اماموں کو مانتے ہیں لیکن 10 لاکھ سے ذیادہ اسماعیلی ہیں جو گلگت-بللتستان کے علاقے میں مرتکز ہیں اور سینکڑوں ہزاروں داؤدی بوہرا (جن کی اکثریت کراچی میں رہتی ہے) بھی ہیں۔ اگر یہ سب پریشان کن بھی ہے، تو پھر بھی ایسا ہی ہے، اگرچہ پاکستان کی مذہبی سرسری خاکہ اب بھی شاید تکمیل پزیر نہیں ہوا۔ اس ملک میں تقریباً 50 لاکھ ہندو اور اتنے ہی عیسائی بھی آباد ہیں اور چند ہزار سکھ بھی۔ تھوڑی سی تعداد یہاں زرتشتوں، بدھ متوں، اور یہودیوں کی بھی ہے۔ اور کچھ سینکڑوں ہزاروں کے حساب سے احمدی بھی آباد ہیں جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں لیکن ریاست نے ان کو غیرمسلم قرار دیا ہے۔ اس آخری گروہ کی کوریج ہمیں بتاتی ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کس طرح غیر مسلم اقیتوں کو ذرائع ابلاغ میں دکھایا جاتا ہے، بالکل ایسا جیسے کہ دوسروں کو ناپسند کیا جاتا ہے۔ ان کو خبروں میں یا تو بطور مظلوم دکھایا جاتا ہے یا ان غیر ملکیوں کی طرح جن کو ناپسندہ ہونے کے باوجود پاکستانیوں کے طور پر برداشت کیا جا رہا ہو۔ 

 خواندگی: ذرائع ابلاغ کے صارفین کے درمیان تفاوت   

عشروں پر محیط لمبے سفر کے بعد، پاکستان ایک کم خواندگی والے ملک سے اوسط خواندگی والا ملک بن گیا ہے۔ اس کی موجودہ شرح خواندگی بالغاں 2۔57 فیصد ہے لیکن اس شرح میں جنس اور علاقوں کے اعتبار سے بہت بڑا فرق ہے۔ سندھ میں شرح خواندگی بالغاں سب سے ذیادہ (72 فیصد)، لیکن وہیں تعلیم نسواں کی شرح (2۔46 فیصد) صوبہ پنجاب (8۔49 فیصد) سے کم ہے۔ اور تعلیم نسواں کی شرح ( بالترتیب 3۔13 فیصد اور 8۔ 23 فیصد)  خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں اور بھی کم ہے۔

چاروں صوبوں کی شرح خواندگی بالغاں میں فرق کچھ کم ہے (کم از کم 65 فیصد اور ذیادہ سے ذیادہ 72 فیصد ) لیکن دونوں جنسوں کے حساب سے شرح خواندگی میں کافی فرق ہے، سندھ میں ذیادہ سے ذیادہ ہے (8۔59 فیصد) اور بلوچستان میں کم از کم 46  فیصد ہے۔ یہ فرق واضح کر دیتا ہے کہ کیوں میڈیا کے صارفین عورتوں سے ذیادہ مرد ہیں اور وہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی نسبت پنجاب اور سندھ میں ذیادہ ہیں۔  

میڈیا پر یقین کا بحران

پاکستان میں لوگ صحافتی ذرائع ابلاغ کی اتنی پیروی نہیں کرتے جیسا کہ خبروں کے ٹی وی چینل ( تقریباً 30) اور اخبارات و جرائد ( تقریباً 475) کی تعداد سے دکھائی دیتا ہے۔ ایک حالیہ سروے بتاتا ہے کہ ٹی وی ناظرین میں سے صرف 19 فیصد خبروں کے چینل دیکھتے ہیں۔ مجموعی طور پر ٹی وی دیکھنے کا رجحان حال ہی میں کم ہوا ہے--  2016 میں یومیہ 11۔2گھنٹوں سے کم ہوکر 2018 میں اوسطاً یومیہ 92۔1گھنٹوں تک رہ گیا ہے۔ اخبارات و جرائد کی تعداد بھی چار سالوں (2008 سے 2012 کے دوران)  بہت کم ہوگئی ہے-- 1991سے کم ہو کر 646 رہ گئی ہے۔ اور اس کے بعد مزید کمی واقع ہوئی ہے۔ 

 صحافتی ذرائع ابلاغ عوامی سطح پر زیادہ مقبول بھی نہیں ہیں۔ جنوری 2019 میں کئے جانے والے سروے سے معلوم ہوتا ہے کہ اکثر لوگ صحافتی میڈیا کی کارکردگی سے یا تو لاتعلقی کا اظہار کرتے ہیں اور یا پھر اس کے متعلق منفی رائے رکھتے ہیں۔ اس کے نتائج کے مطابق 34 فیصد پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ ذرائع ابلاغ اپنی ذمہ داریاں اچھے یا بہت اچھے طریقے سے نبھا رہے ہیں، جبکہ 36 فیصد کا خیال ہے کہ نیوز میڈیا کی کارکردگی اچھی نہیں یا بالکل اچھی نہیں ہے۔ ایک اچھی خاصی تعداد (24 فیصد) کا خیال ہے کہ اس کی کارکردگی نہ تو اچھی ہے اور نہ بری۔ سروے کے مطابق پچھلے سات سالوں میں عوام کا میڈیا سے متعلق مثبت احساس زوال پذیر ہوا ہے۔ 2012 سے لے کر 2019 تک میڈیا کے متعلق اچھی رائے رکھنے والوں کی تعداد میں آٹھ فیصد کمی آئی ہے۔

صحافت کے لیے خطرناک ماحول، صحافیوں کے خلاف جرم کی کوئی سزا نہیں

عالمی اقتصادی فورم نے اپنے سالانہ 'سفر اور سیاحت مقابلے بازی' کی رپورٹ (2017) میں پاکستان کو کولمبیا، یمن اور ایل سلواڈور کے بعد چوتھے نمبر پر خطرناک ترین ممالک کی فہرست میں رکھا۔ 2007 اور 2015 کے دوران ملک کا بڑا حصہ، خاص طور پر ملک کے شمال مغربی اور جنوبی علاقے، حکومت کی عملداری سے باہر رہے، اگر چہ بعد میں سارے علاقے حکومت نے اپنے قابو میں کر لیے۔  2002 سے اب تک، مذہبی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 65000 پاکستانی شہری اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ 2007 اور 2015 کے دوران مزید چند ہزار زندگیاں کراچی کے سیاسی تشدد اور گینگ وار کی نذر ہوئیں۔ گذشتہ ایک عشرے سے بلوچستان میں بھی بلوچ علٰحیدگی پسندوں کی عسکری کارروائیاں ہو رہی ہیں۔ آج بھی ملک کے مختلف علاقوں بشمول بلوچستان، خیبر پختونخوا اور کراچی سے سینکڑوں لوگ لاپتہ/ گمشدہ ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ ان لاپتہ لوگوں کی اکثریت سکیورٹی یا خفیہ اداروں کی تحویل میں ہے۔ باقی ماندہ شاید ہلاک ہوئے ہیں یا مختلف عسکری تنظیموں میں شامل ہوچکے ہیں۔

اگر دہشت گردی، مذہبی یا سیاسی تشدد کو ذہن سے نکال بھی دیں، تب بھی پر تشدد جرائم کی شرح پاکستان میں زیادہ ہے۔ صرف 2012 میں ملک بھر میں 846،13 قتل کے وارداتوں کی رپورٹیں درج ہوئیں۔  اسی سال اقدام قتل کے 338،15 وارداتوں کا بھی اندراج ہوا۔  اگرچہ حال ہی میں امن و امان کی صورتحال میں بہتری آئی ہے لیکن جرائم کی شرح اب بھی زیادہ ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، 2017 میں قتل کے 235،8 وارداتیں ہوئیں ( ہر 10 لاکھ میں سے 39 سے زائد لوگ مارے گئے) اور 4999 اقدام قتل کی واردات ہوئیں۔

اس صورتحال کا اثر پاکستانی صحافیوں کے لیے تحفظ کے لحاظ سے انتہائی منفی ہے۔ سال 2000 سے لے کر اب تک 110 صحافی مارے جا چکے ہیں، 2007 کے بعد 48 قتل کئے گئے صحافی بھی اس میں شامل ہیں۔ ان میں کم از کم 23 وہ صحافی بھی ہیں جو خطرناک حالات میں اپنی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے قتل کئے گئے۔ جرائم میں سزائیں نہ دینے کا رواج حالات کو مزید خطرناک بناتا ہے۔ پچھلی ایک دہائی سے پاکستانی صحافیوں کو قتل کرنے کی پاداش میں کسی کو سزا نہیں ہوئی۔ صحافیوں کے قتل کے 21 واقعات میں مناسب تفتیش تک نہیں ہوئی۔

  • منصوبہ از
    Logo Freedom Network
  •  
    Global Media Registry
  • فنڈ دیئے
    BMZ